خوف کے تاریک زنداں میں بٹھایا جائے گا
ہم پریشاں حال لوگوں کو ستایا جائے گا
چرچ ، کعبے ، مسجد و مندر کی ویرانی تو دیکھ
روٹھ بیٹھا جب خدا ، کیسے منایا جائے گا
خالق و مخلوق پر یکساں پڑی اُفتاد یہ
سو دعا کو معجزے سے جا ملایا جائے گا
پھر کبھی غنچے کِھلے تو جشن کا سوچیں گے ، پر
اِس بہاراں کا تو ماتم ہی منایا جائے گا
کیا خبر تھی لمس کی برکت کو ترسیں گے یہاں
ہاتھ تک لگتا نہیں ، دل کیا لگایا جائے گا
روشنی کے سب حوالوں کو نِگل جائے گی رات
اِن چراغوں کو بھی دریا میں بہایا جائے گا
پھول ، تتلی ، پیڑ ، جگنو ، رنگ ، خوشبو ، چاندنی
ہم نہ ہوں گر ، یہ تماشا کیوں رچایا جائے گا ؟
ایک جھٹکے میں زمین و آسماں بدلے گئے
کیا مرے نقصاں کا اندازہ لگایا جائے گا ؟
برسرِ پیکار سب ہیں ، یہ لڑائی سب کی ہے
ایک بھی ہارا اگر ، اپنا پرایا جائے گا
ان گنت صدیوں کا کچھ دن میں تمدّن لے اُڑی
اے کرونا کی وبا ، کب تیرا سایہ جائے گا
نوعِ انساں کی ترقی کے سفر کی خیر ہو
یہ نیا عفریت بھی اک دن ہرایا جائے گا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…