جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے ، نہیں ، ایسا نہیں

وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں

تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کو اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں

اُن سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں

کب تری بوئے قبا سے بے وفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں

ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں ، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں

خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

Haseeb Ahmed

Recent Posts

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…

3 years ago

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…

3 years ago

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

3 years ago

دلِ گمشدہ

دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا Continue readingدلِ گمشدہ

3 years ago

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…

3 years ago

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…

3 years ago