جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کے لئے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چرا لیتے ہیں لوگ
خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ
ہے بجا ان کی شکائت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ
ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کے لئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ
اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ
یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ
روشنی ہے ان کا ایماں روک مت ان کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا تیرا کیا لیتے ہیں لوگ۔
قتیل شفائی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…