تیرے ابرووںکی حسیںکماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم
نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم
یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم
نہیں جس میں تیری تجلیاں ، اسی جانچتی ہے نظر کہاں
تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم
کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم
مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک
ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم
یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم
یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے
کریںاس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…