تمہارے نام، تمہارے نشاں سے بےسروکار
تمہاری یاد کے موسم گُزرتے جاتے ہیں
بس ایک منظرِ بےہجر و وصل ہے، جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں
نہ وہ نشاطِ تصوّر کہ لو تم آ ہی گئے
نہ زخمِ دل کی ہے سوزش کوئی، جو سہنی ہو
نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے، نہ سحر
نہ شوق کی ہے کوئی داستاں، جو کہنی ہو
نہیں جو محمل لیلائے آرزو سرِ راہ
تو اب فضا میں فضا کے سِوا کچھ اور نہیں
نہیں جو موجِ صبا میں کوئی شمیمِ پیام
تو اب صبا میں صبا کے سِوا کچھ اور نہیں
اُتار دے جو کنارے پہ ہم کو کَشتیٔ وہم
تو گَرد و پَیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں
نہ کوئی زخم، نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گُزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
مگر یہ زخم، یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور اِک زمانے میں
۔جون ایلیاء
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…