بیٹیوں جیسی ھے تُو، سو جب بڑی ھوجائے گی
اے اُداسی ! کیا تری بھی رُخصتی ھوجائے گی ؟
ایک ھی تو شخص مانگا ھے خُدایا ! دے بھی دے
کونسا تیرے خزانوں میں کمی ھوجائے گی
میری بستی میں تو تِتلی پر بھی مَر مِٹتے ھیں لوگ
تیرے آنے سے تو خلقت باؤلی ھوجائے گی
میرا کیا ھوگا، بتا ! تیری محبت ھار کر ؟
تیرا کیا ھے، تُجھ کو فوراً دوسری ھوجائے گی
میرے حِصّے کی خُوشی پر کُڑھنے والے دوستو
اِس طرح کیا میری نعمت آپ کی ھوجائے گی ؟
پھول کُملا جائے گا اتنی مُسلسل دُھوپ سے
ھجر کی شدت سے گوری سانولی ھوجائے گی
دُور ھے جس بزم سے اُس بزمِ کی نیّت تو کر
غیر حاضر شخص ! تیری حاضری ھوجائے گی
بولنے سے شرم آتی ھے تو آنکھوں سے بتا
چُپ بھی ٹُوٹے گی نہیں اور بات بھی ھوجائے گی
اور کیا ھوگا زیادہ سے زیادہ ھجر میں ؟
سانس کی مہلت میں تھوڑی سی کمی ھوجائے گی
اُس کو فارس اپنے سچّے لمس کا تریاق دے
تیری آنکھوں کی ڈسی اچھی بھلی ھو جائے گی
رحمان فارس
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…