بجھ گئی آگ ‘ سو میں اپنی تن آسانی کو
اوڑھ لیتا ہوں ترے جسم کی عُریانی کو
خوف کھائیں گے تو مر جائیں گے ویرانے میں
تُم زرا آگ جلاؤ ‘ میں چلا پانی کو
بے سبب کوئی یہاں دشت و بیاباں لایا
ہجر کافی تھا مری آنکھ کی ویرانی کو
واپس آئے تو در و بام بھی اپنے نہ رہے
ہم جو گھر چھوڑ کے نکلے تھے جہاں بانی کو
پہرہ داروں نے مرے قتل میں عجلت کی ہے
میں تو آیا تھا ترے گھر کی نگہبانی کو
میں تو سیلاب سے کہتا ہوں مرے گھر آؤ
اور لے جاؤ مری بے سرو سامانی کو
وہ اگر ڈھانپ دے تعبیر سے مجھ کو نیّرؔ
چھوڑ دوں خوابِ پیشماں کی پیشمانی کو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…