ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی
ضعف قویٰ نے آمد پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی
سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی
کمزوریٔ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی
ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے
دامان یار سے کوئی نسبت نہیں رہی
پیہم طواف کوچۂ جاناں کے دن گئے
پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی
چہرے کو جھریوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی
اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمارؔ
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…