اُس شام وہ رُخصت کا سماں ، یاد رھے گا
وہ شہر ، وہ کُوچہ ، وہ مکاں ، یاد رھے گا
وہ ٹِیس کہ اُبھری تھی اِدھر ، یاد رھے گی
وہ درد کہ اُٹھا تھا یہاں ، یاد رھے گا
ھم شوق کے شعلے کی لپک ، بُھول بھی جائیں
وہ شمعِ فسُردہ کا دُھواں ، یاد رھے گا۔
کچھ میر کے ابیات تھے ، کچھ فیض کے نُسخے
اِک درد کا تھا جن میں بیاں ، یاد رھے گا
جاں بخش سی ، اُس برگِ گُلِ تر کی تراوت
وہ لمسِ عزیز دو جہاں ، یاد رھے گا
ھم بُھول سکے ھیں ، نہ تجھے بُھول سکیں گے
تو، یاد رھے گا ، ھاں ھمیں یاد رہے گا
“اِبنِ اِنشاء”
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…