اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
بہشتی غنچوں سے گوندھا گیا صراحی بدن
گُلاب خوشبو چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
ذَہین تتلی کو یہ پنکھڑی لگے شاید
لبوں سے تتلی اُڑائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
حسین تتلیاں ، پانی میں اُس کو دیکھیں تو
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
وُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائیں
تو پریاں پیر دَبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
قدم ، اِرم میں دَھرے ، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
یہ جھاڑو دیتی ہیں پلکوں سے یا حسیں حوریں
قدم کی خاک چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
جنہوں نے اُس کی جھلک دیکھی ، حور کا گھونگھٹ
مُحال ہے کہ اُٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خدا نے اِس لیے اُس کو بہشت سے بھیجا
فرشتے کرتے خطائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
جو دیکھ لیں اُسے تو مصر بھر کے شاہی غلام
چھری پہ ہاتھ چلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں
حُضور! چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
وُہ چاند عید کا اُترے جو دِل کے آنگن میں
ہم عید روز منائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
زَمیں پہ خرمنِ جاں رَکھ کے ہوشمند کہیں
بس آپ بجلی گرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
طلسمِ حُسن ہے موجود لفظوں سے اَفضل
لغت جدید بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خطیب دیکھیں گزرتا تو تھک کے لوگ کہیں
حُضور خطبہ سنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
حلال ہوتی ہے ’’پہلی نظر‘‘ تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
شریر مچھلیاں کافِر کی نقل میں دِن بھر
مچل مچل کے نہائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
جو شعر جانِ غزل تھا ، وُہ جان کر چھوڑا
کہ آپ مر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…