آیاتِ ہجر کی بیاں تفسیر کی نہیں
دل پر گزرتی جو بھی وہ تحریر کی نہیں
کوئی تو بھید ہو گا خموشی کے آس پاس
جلتی ہوئی نگاہ نے تقریر کی نہیں
دستک ترے جمال نے جب بھی ذہن پہ دی
اٹھ کر گلے لگا لیا تاخیر کی نہیں
تجھ کو رکھا سنبھال کے پتلی کے درمیاں
اوجھل کبھی نگاہ سے تصویر کی نہیں
میں تو تمھاری قید میں جیتا ہوں رات دن
ڈھیلی کبھی خیال نے زنجیر کی نہیں
دل میں رکھا تجھے جو تو پوجا ہے اپنا آپ
پھر میں نے اپنی ذات کی تحقیر کی نہیں
تیری جفا کی بخشی نشانی سنبھال لی
مٹتے ہوئے وجود کی تعمیر کی نہیں
دیکھا جو پورا خواب ادھورا ہی رہ گیا
میں نے بھی پھر عیاں کبھی تعبیر کی نہیں
واحد وجود تیرے سے روشن ہے میرا دل
تجھ بن کسی کو چاہوں یہ تقصیر کی نہیں
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…